Monday, June 8, 2020

برکہ خان

تیرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں شمال مغربی ایشیا کی طرف سے ایک ایسا طوفان نکلا جس نے دنیا کا نظام درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ اس طوفان کو منگول کہتے تھے۔ چنگیز خان نے ظلم و ستم کے وہ پہاڑ ڈاھے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ منگول جہاں جاتے وہاں ظلم کے علاوہ اور کچھ نہ ہوتا تھا۔ منگولوں نے تقریباً چند ہی سالوں میں تین کروڑ مربع کلومیٹر تک اپنی سلطنت بنا دی تھی۔ کھوپڑیوں کے مینار اور خون کی خولی کے علاوہ منگولوں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ مگر چنگیز خان ہی کی نسل سے اس کے پوتے برکہ خان نے اپنے پورے قبیلے کے ساتھ اسلام قبول کر لیا تھا۔


یہ تقریباً تیرھویں صدی عیسوی کے نصف کا واقعہ ہے جب مصر میں ایک عالم دین کے ہاتھوں برکہ خان اور اس کے پورے قبیلے نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد منگولوں کا ذوال شروع ہو گیا۔برکہ خان نے اسلام قبول کرنے کے بعد بیبرس کو خط لکھا کہ وہ اپنے چچازاد بھائی ہلاکو خان کے ساتھ جہاد کرنا چاہتا ہے اور اس کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ سلطان بیبرس نے پیشکش قبول کی اور حرمین شریفین کو سلطان اور خلیفہ کے بعد برکہ خان کے لیے دعا کا کہا۔


اس میں ارطغرل غازی کا بہت اہم کردار تھا کیونکہ ارطغرل غازی نے ہی برکہ خان کو جہاد پر راضی کیا تھا۔


برکہ خان کی سلطنت قفقاز کے کوہساروں بلغاریہ کی حدود تک وسیع تھی۔ ہلاکو خان نے سن 1262 عیسوی میں شام اور مصر پر دوبارہ حملے کی تیاری کی، لیکن ہلاکو خان اس وقت حیران ہو گیا جب برکہ خان کی فوج قفقاز کے بلند پہاڑوں سے نمودار ہوئی۔ یہ دیکھ کر ہلاکو خان کو شام کی مہم ملتوی کرنی پڑی۔ ہلاکو خان کی فوج نے برکہ خان کی فوج کو دریائے تیرک کے قریب وقتی طور پر پسپا تو کر دیا مگر برکہ خان کے بھتیجے نوگائی کے جوابی حملے پر ہلاکو خان کی فوج درہم برہم ہو گئی اور پیچھے ہٹتے ہوئے دریائے تیرک تک آ گی۔ اس وقت موسم سرما چل رہا تھا۔ دریا کی سطح سردی کی وجہ سے پہلے ہی منجمند ہو چکی تھی اور وہ اس فوجی لشکر کا بوجھ برداشت نہ کر سکی اس طرح ہلاکو خان کی فوج دریا میں ہی ڈوب کر ختم ہو گئی۔ اس جنگ میں ہلاکو خان کا ایک بیٹا بھی مارا گیا۔ ہلاکو خان کو خود اپنی جان بچانے کے لیے ایک جزیرے میں پناہ لینی پڑی۔

اس کے بعد ہلاکو خان نے گرجستان اور آرمینیا کے نصرانی خلیفوں کو ساتھ ملا کر زریں خیل کی سرحدوں پر حملے شروع کر دے۔ ان حملوں کے جواب میں برکہ خان نے نہ صرف روسیوں کو اپنی فوج میں بھرتی کیا بلکہ وسطی ایشیا تک رسائی حاصل کر لی۔ ہلاکو خان اور برکہ خان کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ برکہ خان کی فوج ایمان اور توحید کی طاقت سے سرشار تھی جبکہ ہلاکو خان کی فوج کو خون ریزی کے علاوہ کچھ دیکھائی نہ دیتا تھا۔ حق اور باطل کے درمیان یہ جنگ بہت دیر تک چلتی رہی۔ منگول اس وقت بہت کمزور ہو چکے تھے جب بہت سارے برکہ خان کی فوج میں شامل ہو کر اسلام قبول کر لیا اور دوسری طرف سلطان بیبرس کا ڈر بھی منگولوں میں گھر کر گیا تھا۔ اس طرح منگول دو فرقوں میں تقسیم ہو گئے اسلام دوست منگول اور اسلام دشمن منگول۔ اس طرح ایک سفاک فاتح قوم اسلام کی مفتوح ہو گئی۔

علامہ اقبال منگولوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

ہے عیاں فتنہ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے


1 comment:

سلطان رکن الدین بیبرس

پاؤں زنجیروں سے جکرے ہوئے، ایک آنکھ زخمی ہوچکی تھی مگر اس کے خوبصورت چہرے نے اس کی آنکھ کے زخم کو کم کر دیا تھا۔ نیلی آنکھوں اور لمبے قد کا ...