Tuesday, June 16, 2020

سلطان رکن الدین بیبرس

پاؤں زنجیروں سے جکرے ہوئے، ایک آنکھ زخمی ہوچکی تھی مگر اس کے خوبصورت چہرے نے اس کی آنکھ کے زخم کو کم کر دیا تھا۔ نیلی آنکھوں اور لمبے قد کا یہ نوجوان ایک غلام تھا۔ اس کو فروخت کرنے کے لیے بازار میں لایا گیا۔ اس کی آنکھ کی وجہ سے کوئی اس کو نہیں خرید رہا تھا۔ ایک شخص نے اس کو خرید ہی لیا مگر کچھ دنوں کے بعد کسی کو بیچ دیا اور اس طرح کرتے کرتے یہ نوجوان دمشق میں ایک فاطمہ نامی عورت کا غلام بن گیا۔

اس لڑکے کا نام محمود تھا۔ فاطمہ کا ایک بیٹا تھا جو بچپن ہی میں چل بسا اس کا نام بیبرس تھا۔ فاطمہ کو اپنے غلام محمود میں اپنا بیٹا نظر آتا تھا، چنانچہ اس نے اس کا نام اپنے بیٹے کے نام پر رکھ لیا۔ اب محمود بیبرس کہلانے لگا۔ فاطمہ کا ایک بھائی تھا جو مصر کے سلطان ملک الصباح کے دربار میں ایک ممتاز مقام رکھتا تھا۔ اس نے جب بیبرس کو دیکھا تو فاطمہ سے کہا کہ اس کو وہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے اور سلطان کی خدمت میں پیش کرے گا۔ فاطمہ اس پر راضی ہو گی. سلطان نے بیبرس کو دیکھا تو اپنے حفاظتی دستے میں رکھ لیا۔ بیبرس نے سلطان کے ساتھ رہ کر کتابی علوم میں مہارت حاصل کر لی۔


سلطان کو بیبرس کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا پڑا اور بہت ہی جلد اس کو ایک فوجی دستے کا افسر بنا دیا گیا۔ اس زمانے میں ساتویں صلیبی جنگ شروع ہو جس میں بیبرس نے اپنا نام منوا لیا۔ اس طرح بیبرس ریاست کی سیاسی اور فوجی دنوں سرگرمیوں میں شامل ہو گیا۔

1260 میں بیبرس کو مصری فوج کا سپہ سالار مقرر کر دیا گیا۔ اس کے سامنے بہت بڑا امتحان تھا، وہ اس موقع پر سپہ سالار بنا جب منگول مصر کو فتح کرنے کی تیاری کر رہے تھے، بیبرس کو منگولوں سے شدید نفرت تھی کیونکہ بیبرس کے پورے گھرانے کو تباہ کرنا اور پھر غلام بنا دینے والے منگول ہی تھے۔ بیبرس برسوں سے منگولوں سے بدلہ لینا چاہتا تھا اور خوش قسمتی سے یہ موقع اس کو 1260 میں ہی جالوت کے مقام پر مل گیا۔


کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کر قل ھو اللہ ھو احد کہتے ہیں

مصر کے سلطان نے بیبرس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کو حلب جی زمین انعام میں دے گا جب وہ منگولوں سے فتح حاصل کر کے آئے گا لیکن سلطان اپنی بات سے نہ صرف مکر گیا بلکہ ببیرس کو قتل کرنے کی بھی کوشیش کی اس کی وجہ بیبرس کی بہادری تھی کہ کہیں وہ سلطان نہ بن جائے لیکن بیبرس کو جب سلطان کی غداری کا علم ہوا تو اس نے سلطان کو قتل کر دیا، اس طرح ایک غلام لڑکا جس کے پاس کچھ نہیں تھا پورے مصر کا بادشاہ بن گیا۔

سلطان بیبرس نے اپنے دورے خلافت میں منگولوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ سب سے بڑا نقصان عین جالوت کے مقام پر منگولوں کو تاریخ کی پہلی اور عبرتناک شکست سے دوچار کرنا تھا۔ منگولوں کا ہدف مصر کو فتح کرنے کے بعد حجاذ مقدس یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے عزیم شہروں کو فتح کرنا تھا۔ سلطان بیبرس نے ناصرف مصر کو بچایا بلکہ حجاذ مقدس کی بھی حفاظت کی۔


تیرے کعبے کو جبینوں سے لگایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

منگول جب پہلی جنگ ہارے تو انہوں نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا لیکن سلطان بیبرس نے منگولوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ منگول سلطان بیبرس سے بہت خوفزدہ ہونے لگ گئے تھے۔ منگولوں کی آدھی فوج تو برکہ خان کی وجہ سے اسلام قبول کر چکی تھی اور جو بچ گئے تھے وہ سلطان بیبرس سے خوفزدہ تھے۔


منگولوں کو عبرتناک شکست دینے کے بعد اب باری تھی صلیبیوں کی، فرانس کے شہنشاہ نے نعرہ لگایا کہ "یروشلم ہمارا ہے" اور مصر پر جنگ مسلط کر دی۔ یہ نویں اور آخری صلیبی جنگ رھی۔ اس جنگ میں سلطان بیبرس نے صلیبیوں کو عبرتناک شکست دی اور شہنشاہ کو بھی گرفتار کر لیا جو بعد میں بھاڑی رقم دے کر آزاد کر دیا گیا۔

سلطان بیبرس کا ایک اور کارنامہ تھا کہ اس نے سلطنت عباسیہ کو دوبارہ قائم کیا۔ اس وقت مسلمانوں کی کوئی سلطانت نہیں تھی سلطان بیبرس نے ابوالقاسم احمد جو عباسیہ سلطنت کے ایک خلیفہ کا بیٹا تھا اس کی بیعت کی اور اس طرح سلطنت عباسیہ کو دوبارہ قائم کیا گیا، یہ سلطنت تو نام کی ہی تھی حکم صرف سلطان بیبرس کا ہی مانا جاتا تھا لیکن خلیفہ کی بھی بہت عزت کی جاتی تھی۔


سلطان بیبرس کے عظیم کارناموں میں منگولوں کو پہلی شکست سے دوچار کرنا، حجاذ مقدس کی حفاظت، نویں اور آخری صلیبی جنگ کا فاتح، یروشلم کی حفاظت اور سلطنت عباسیہ کیا قیام تھا۔ یہ مرد مجاہد 1277 میں اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔



1 comment:

سلطان رکن الدین بیبرس

پاؤں زنجیروں سے جکرے ہوئے، ایک آنکھ زخمی ہوچکی تھی مگر اس کے خوبصورت چہرے نے اس کی آنکھ کے زخم کو کم کر دیا تھا۔ نیلی آنکھوں اور لمبے قد کا ...