Saturday, May 30, 2020

سامسا چاوش

سلطنت عثمانیہ کے عظیم کمانڈرز اور ارطغرل غازی کے بہترین جنگجوؤں میں ایک سامسا چاوش بھی تھے۔ اردو میں سامسا صفدر کو کہتے ہیں اور چاوش کے معنی سارجنٹ کے ہیں جو ان کو ان کے کارناموں کی بنیاد پر لوگوں نے دیا۔

سامسا چاوش ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ارطغرل غازی کے ساتھ بازنطینی سرحد کی طرف ہجرت کی جب ان کے اپنے بھائی گلداروں اور صارم نے ہجرت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سامسا چاوش ارطغرل غازی کے ساتھ سوغوت بھی گئے تھے۔

فنافی اللہ کی تہہ میں بقاء کا راز مضمر ہے
جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا

سامسا چاوش اناطولیہ میں ہونے والی جنگ میں ارطغرل غازی کے ساتھ موجود تھے جس میں منگولوں کو تاریخ کی پہلی اور عبرت ناک شکست ہوئی۔ اس جنگ میں برکہ خان جو چنگیز خان کا پوتا تھا جو اسلام قبول کر چکا تھا اس نے اپنے چچازاد بھائی ہلاکو خان کے خلاف یہ جنگ لڑی اور مسلمانوں کو فتح ہوئی تھی۔

ارطغرل غازی کے جانے کے بعد انہوں نے عثمان غازی کا بھی ساتھ دیا۔ یہ عثمان غازی کے قریب ترین سپاہیوں میں سے ایک تھے۔ عبدالرحمن غازی الپ اور ٹورگٹ الپ کی طرح انہوں نے بھی لمبی عمر پائی تھی۔ سلطنت عثمانیہ کے آغاز میں انہوں نے عثمان غازی کا ساتھ دیا۔ جب سلطنت کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے بعد انہوں نے بازنطینی فوجوں کو بہت تنگ کیا تھا۔

سامسا چاوش آزنک کے قریب آباد ہو گئے تھے۔ آزنک میں ایک قلعہ تھا جو بازنطینی ملکیت میں تھا۔ اس قلعے کو سامسا چاوش نے بہت نقصان پہنچایا لیکن فلحال مجھے تاریخ میں ایسا کہیں نہیں ملا کہ اس قلعے کو کس نے فتح کیا تھا؟ مگر سامسا چاوش نے اس قلعے کو اتنا نقصان پہنچا دیا تھا کہ اس قلعے کے گورنر کو شہنشاہ سے مدد مطلب کرنی پڑی تھی۔

انہوں نے سلطان عثمان غازی کے بعد ان کے بیٹے سلطان اورحان غازی کا بھی ساتھ دیا۔ سامسا چاوش وہ پہلے جنگجو تھے جن کو چاوش کا خطاب دیا گیا تھا اس سے پہلے یہ خطاب کسی کو نہیں ملا تھا۔ چاوش کا مطلب جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ سارجنٹ کے ہیں مگر ان کی ذمہ داریاں اور حقوق آج کے سارجنٹ کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ مشکل تھے۔

سامسا چاوش ١٣٣٠ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی آخری آرام گاہ مدورنو کے قریب گاؤں ہاکیمسالار میں ہے۔

Thursday, May 28, 2020

عبدالرحمن غازی الپ

آج آپ کو بتائیں گے ایک ایسے مرد مجاہد کے بارے میں جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ ان کا نام عبدالرحمن تھا۔ ان کا تعلق قائی قبیلے سے تھا۔ ان کی پیدائش کی جگہ اور تاریخ واضح طور پر معلوم نہیں ہے۔

 انہوں نے پہلے سردار سلیمان شاہ کے دور میں خدمات سرانجام دئیں۔ اس کے بعد ان کے بیٹے ارطغرل غازی کا ساتھ دیا جس کے بعد لوگ ان کو
عبدالرحمن غازی الپ کے نام سے جاننے لگے۔

عبدالرحمن غازی الپ کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ
شیر جوان  رات کو دشمن کی طرف تیر چلائے بغیر نہیں سوتے  تھے ، اور دن  کو گھوڑے کی پیٹھ پر تلوار سے لڑے بغیر نیچے نہیں اترتے تھے۔ انہوں نے سخت مقابلہ کیا اور واحد ، خدا کی فتح پر بھروسہ کیا۔ عبدالرحمن غازی الپ نے ارطغرل غازی کا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا اور کئیں بار اپنی جان بھی خطرے میں ڈالی۔ ان کو دنیا کی لذتوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ یہ اپنے دوست ارطغرل غازی کے بہت وفادار سپاہیوں میں سے تھے۔انہوں نے ٹورگٹ الپ کی طرح لمبی عمر پائی تھی۔ ارطغرل غازی کے بعد انہوں نے ان کے جانشین عثمان غازی کا ساتھ دیا۔ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد میں عبدالرحمن غازی الپ کا بہت اہم کردار تھا۔سلطنت عثمانیہ کے آغاز میں بہت سے قلعے فتح ہوۓ۔ عبد الرحمن غازی استنبول کے اطراف کے حفاظتی بیرکوں پر بجلی سے چھاپے مار کر بازنطینی فوجیوں کو قیدی بنا رہے تھے۔ ان کا حتمی حکم  ،استنبول کے گیٹ وے ، ایوڈوس قلعے کو فتح کرنا تھا۔
 یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
 جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

 سامسا چاوش جو آزنک کے قریب آباد ہو گئے تھے۔ آزنک میں ایک قلعہ تھا جو بازنطینی ریاست میں تھا۔ سامسا چاوش قلعہ کے راستے میں بازنطینی سپاہیوں کو وقتاً فوقتاً تنگ کرتے رہتے تھے۔ قلعے کے گورنر نے شہنشاہ کو خط تحریر کیا اور مدد کی درخواست کی۔ استنبول سے ایک فوجی دستہ مدد کے لیے روانہ کیا گیا۔ یہ بہت بڑا فوجی دستہ تھا۔ قسطنطنیہ (استنبول) کے علاقے سے جمع کیا بازنطینی فوج کا دستہ جہازوں کے ذریعے یلوفا لے جایا گیا۔ جب اس کی خبر عبدالرحمن غازی الپ کو ملی تو انہوں نے اس فوجی دستے پر چڑھائی کر دی، بہت سے بازنطینی سپاہی مارے گئے اور بچ جانے والے جان بچا کر قسطنطنیہ واپس پلٹ گئے۔ تاریخ میں کہا جاتا ہے کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے میں اس حملے کا بہت اہم کردار تھا، اس کی وجہ
سے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا راستہ کھولا گیا۔ 

سلطان عثمان غازی کے بعد ان کے بیٹے اورحان غازی کا بھی ساتھ دیا،جی ہاں پہلے سلیمان شاہ پھر ان کے بیٹے ارطغرل غازی پھر ان کے بیٹے سلطان عثمان غازی کے بعد ان کے بیٹے سلطان اورحان غازی کا بھی ساتھ دیا۔ سلطان اورحان غازی نے عبدالرحمن غازی الپ، کونور الپ اور اکاکو الپ کو ایوڈوس قلعے کو فتح کرنے کا حکم دیا۔ یہ قلعہ مشرقی رومن عہد میں 11 ویں اور 12 ویں صدی میں تعمیر کیا گیا ، ایوڈوس قلعے نے اپنے اسٹریٹجک مقام کی بدولت ایک اہم کام کیا تھا۔ اس قلعے کو فتح کرنے کے پیچھے ایک محبت کی کہانی ہے۔ قلعے کے مالک کی بیٹی نے ایک مرتبہ خواب میں ایک نوجوان لڑکے کو دیکھا جس نے اسے ایک کنویں میں گرنے سے بچایا۔ اس لڑکی کو اس کے خواب میں آنے والے نوجوان سے محبت ہو گئی۔ دوسری طرف عبدالرحمن غازی نے سلطان اورحان غازی کے حکم پر قلعے کا محاصرہ کر لیا تھا۔ جب اس لڑکی نے عبدالرحمن غازی الپ کو دیکھا تو اس کو پتہ چلا کہ عبدالرحمن غازی وہی تھے جس نے اسکی جان خواب میں بچائی تھی یعنی جس سے وہ محبت کرتی تھی۔ اس لڑکی نے ایک خطہ لکھا اور اس کو پتھر کے ذریعے اس لشکر کی طرف ماڑا جس کی سربراہی عبدالرحمن غازی الپ کر رہے تھے۔

اس خط میں لکھا تھا کہ وہ عبدالرحمن غازی کی قلعہ فتح کرنے میں مدد کرے گی اور ایک خفیہ راستے سے ان کو قلعے کے اندر لے کر جاۓ گی۔ یہ دیکھ کر عبدالرحمن غازی نے اپنے سپاہیوں کو پیچھے جانے کا حکم دیا یعنی ایسا محسوس کروایا دشمن کو کہ انہوں نے حملے کا منصوبہ منقطع کر دیا ہے۔ رات کو اس لڑکی کی مدد سے عبدالرحمن غازی اپنے سپاہیوں کے ساتھ قلعے میں گھس گئے اور قلعے پر قبضہ کر لیا۔ اس قلعے کو فتح کرنے کے بعد سلطان اورحان غازی بہت خوش ہوئے۔ عبدالرحمن غازی الپ نے اس قلعے والی لڑکی سے شادی کر لی جس سے ان کو اولاد بھی ہوئی۔ سن 1329 میں اورحان غازی کے دور حکومت میں یہ مرد مجاہد اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے، بتایا جاتا ہے کہ ان  کی  قبر (آرام گاہ) ایرزورم کے ایک گاؤں میں ہے۔

سلطان رکن الدین بیبرس

پاؤں زنجیروں سے جکرے ہوئے، ایک آنکھ زخمی ہوچکی تھی مگر اس کے خوبصورت چہرے نے اس کی آنکھ کے زخم کو کم کر دیا تھا۔ نیلی آنکھوں اور لمبے قد کا ...